محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم! میری شادی کو تقریباً آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ میری بیوی میری ماں کی سگی بھانجی ہے جب سے میری شادی ہوئی ہے والدہ کا رویہ بیوی کے ساتھ تبدیل ہو گیا ہے۔ تمام تر گھر کے کام کاج صبح ناشتہ سے لے کر رات کا کھانا پکانے تک اور گھر کا سارا کام بھی اس کے ذمہ لگا دیا۔ میری دو بہنیں ہیں ان کے بارے میں میری والدہ کہتی ہیں کہ ایک بہن چھوٹی پڑھ رہی ہے اس نے کام نہیں کرنا۔ بڑی بہن (مجھ سے چھوٹی) اُسے اب میں نے کام نہیں کرنے دینا اور مجھ سے تو ہوتا نہیں لہٰذا ساری ذمہ داری بہو کی ہے۔ میں نے بارہا عرض کی کہ آپ گھر کا کام بانٹ دیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ میرے گھر میں کام ہی کتنا ہے جو میں بانٹوں۔ اگر کبھی غصے میں آ کر بیٹیاں کرنے بھی لگتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میری بیٹیاں کمزور ہو گئی ہیں اور یہ صرف دوچار دن کے کام سے ہو جاتا ہے۔ میری بیگم میکے جائے تو سارے گھر والے مل کر کام کرتے ہیں، وہ آ جائے تو سب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ بیگم حاملہ ہوئی تو اس کی کمر میں درد شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے اتنا شدید ہو گیا کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی اور لیٹ کر کروٹ بھی نہیں بدل سکتی تھی۔ اس حالت میں بھی میری والدہ اس سے گھر کا سارا کام کرواتی رہیں۔ میں نے ایک دفعہ والدہ سے کہا کہ میں دو ماہ کیلئے گھر میں کام کرنے والی لگوا لیتا ہوں اس کو پیسے بھی میں خود ہی دوں گا اس سے کام نہیں ہوتا۔ والدہ کہنے لگی اگر گھر میں بندہ بیمار ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر کا کام کاج چھوڑ دے اور میرے گھر میں نوکرانی نہیں لگے گی۔
بیوی سخت بیمار مگر ماں کو ترس نہ آیا
جس رات میرے بیٹے کی پیدائش ہوئی مجھے یاد ہے کہ اس رات بھی میری بیگم نے رات کا کھانا بنایا، کھانے کے بعد برتن دھوئے۔ ابھی برتن دھونے کے بعد فارغ ہی ہوئی تھی کہ میں اسے لے کر سیدھا ہسپتال چلا گیا۔ یہ بیمار ہو، بخار ہو، گھر کے کام کی ذمہ داری اسی کی ہے۔ گھر میں صبح سے دوپہر تک ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ پہلے چھ بجے میرے لیے اور بچوں کیلئے، آٹھ بجے والد صاحب کیلئے، نو بجے بھائی کیلئے اور بہنیں سو رہی ہوتی ہیں۔ ان کیلئے والدہ کہتی ہیں کہ وہ اُٹھیں گی تو پھر بنا کر دینا، ابھی سونے دو۔ جب تک سو کر اُٹھتی ہیں گھر کا سارا کام بیگم کر چکی ہوتی ہے ۔کوئی پھل لے کر آئوں تو بیگم والدہ کے سامنے نہیں کھا سکتی۔ اگر یہ کھانے بھی لگے تو والدہ اُٹھا کے کہتی ہیں یہ فلاں کیلئے رکھ دو حالانکہ وہ پھل وافر مقدارمیں موجود ہوتا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے نظر رکھتی ہیں، کیا چیز ڈالی اور کتنی ڈالی ہے۔ گھر کی کسی چیز پر ہمارا کوئی حق نہیں، ہم اپنی مرضی سے کوئی چیز پکا نہیں سکتے۔
حضرت جی! مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ گھر میں میرے لیے آئی ہے یا گھر والوں کیلئے نوکرانی۔ دفتر کیلئے اپنے کپڑے جوتے اور کپڑے سب کچھ میں نے خود ہی تیار کرنا ہیں جبکہ آج بھی میرے والد دفتر جاتے ہیں تو ان کو کپڑے دینا، جوتے دینا اور جب وہ تیار ہوں تو میری والدہ کا وہیں کمرے میں موجود ہونا۔ کیا میرے یا میری بیوی کے کوئی ارمان نہیں۔یہ بات ان کی سمجھ میں کبھی کیوں نہیں آئی۔ یہ سب برداشت کرنے کا مقصد صرف رشتوں کو جوڑے رکھنا‘خدا اور والدہ کی رضامندی تھی۔سسرال والوں کی کوئی عزت نہیں۔ میری ساس چند بار آئی۔ والدہ نے اسے اچھا خاصا ذلیل کیا اب بس ہم دونوں ہیں اور ہماری تنہائیاں۔ حالات نے ہمیں اتنا رُلایا ہے کہ اب تو ہم اِک دوسرے کو تسلی بھی نہیں دیتے۔ دونوں کو چُپ سی لگ گئی ہے۔ بچوں کی تربیت پر بہت اثر پڑرہا ہے۔ بچوں کو دین کے راستے پر لگانا چاہتے ہیں۔ اب تسبیح خانہ کی شکل میں خدا نے ایک راستہ دکھایا ہے۔ خدا را کوئی ایسا حل بتاد یں جس سےیہ ظلم ختم ہو اور والدہ کا رویہ بیوی کے ساتھ بیٹیوں کی طرح ہو جائے۔ (ن‘ کراچی)
ایسے لرزہ خیز اور مشکل حالات سے نکلنے کا عمل
ایک تسبیح صبح و شام اول و آخر درود پا ک کے ساتھ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کسی کھانے والی چیز پر دم کر کے تمام گھر والوں کو کھلائیں‘مزیدزبان تالو کے ساتھ لگا کر دل ہی دل میں یہی آیت سات مرتبہ وقفہ وقفہ سے پڑھیں۔ ہدیہـ:مہینےمیں ایک بار کسی بھوکے کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں۔ یہ عمل ہر حالت میں کر سکتے ہیں۔
محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم! میری شادی کو تقریباً آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ میری بیوی میری ماں کی سگی بھانجی ہے جب سے میری شادی ہوئی ہے والدہ کا رویہ بیوی کے ساتھ تبدیل ہو گیا ہے۔ تمام تر گھر کے کام کاج صبح ناشتہ سے لے کر رات کا کھانا پکانے تک اور گھر کا سارا کام بھی اس کے ذمہ لگا دیا۔ میری دو بہنیں ہیں ان کے بارے میں میری والدہ کہتی ہیں کہ ایک بہن چھوٹی پڑھ رہی ہے اس نے کام نہیں کرنا۔ بڑی بہن (مجھ سے چھوٹی) اُسے اب میں نے کام نہیں کرنے دینا اور مجھ سے تو ہوتا نہیں لہٰذا ساری ذمہ داری بہو کی ہے۔ میں نے بارہا عرض کی کہ آپ گھر کا کام بانٹ دیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ میرے گھر میں کام ہی کتنا ہے جو میں بانٹوں۔ اگر کبھی غصے میں آ کر بیٹیاں کرنے بھی لگتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میری بیٹیاں کمزور ہو گئی ہیں اور یہ صرف دوچار دن کے کام سے ہو جاتا ہے۔ میری بیگم میکے جائے تو سارے گھر والے مل کر کام کرتے ہیں، وہ آ جائے تو سب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ بیگم حاملہ ہوئی تو اس کی کمر میں درد شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے اتنا شدید ہو گیا کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی اور لیٹ کر کروٹ بھی نہیں بدل سکتی تھی۔ اس حالت میں بھی میری والدہ اس سے گھر کا سارا کام کرواتی رہیں۔ میں نے ایک دفعہ والدہ سے کہا کہ میں دو ماہ کیلئے گھر میں کام کرنے والی لگوا لیتا ہوں اس کو پیسے بھی میں خود ہی دوں گا اس سے کام نہیں ہوتا۔ والدہ کہنے لگی اگر گھر میں بندہ بیمار ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر کا کام کاج چھوڑ دے اور میرے گھر میں نوکرانی نہیں لگے گی۔ بیوی سخت بیمار مگر ماں کو ترس نہ آیاجس رات میرے بیٹے کی پیدائش ہوئی مجھے یاد ہے کہ اس رات بھی میری بیگم نے رات کا کھانا بنایا، کھانے کے بعد برتن دھوئے۔ ابھی برتن دھونے کے بعد فارغ ہی ہوئی تھی کہ میں اسے لے کر سیدھا ہسپتال چلا گیا۔ یہ بیمار ہو، بخار ہو، گھر کے کام کی ذمہ داری اسی کی ہے۔ گھر میں صبح سے دوپہر تک ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ پہلے چھ بجے میرے لیے اور بچوں کیلئے، آٹھ بجے والد صاحب کیلئے، نو بجے بھائی کیلئے اور بہنیں سو رہی ہوتی ہیں۔ ان کیلئے والدہ کہتی ہیں کہ وہ اُٹھیں گی تو پھر بنا کر دینا، ابھی سونے دو۔ جب تک سو کر اُٹھتی ہیں گھر کا سارا کام بیگم کر چکی ہوتی ہے ۔کوئی پھل لے کر آئوں تو بیگم والدہ کے سامنے نہیں کھا سکتی۔ اگر یہ کھانے بھی لگے تو والدہ اُٹھا کے کہتی ہیں یہ فلاں کیلئے رکھ دو حالانکہ وہ پھل وافر مقدارمیں موجود ہوتا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے نظر رکھتی ہیں، کیا چیز ڈالی اور کتنی ڈالی ہے۔ گھر کی کسی چیز پر ہمارا کوئی حق نہیں، ہم اپنی مرضی سے کوئی چیز پکا نہیں سکتے۔ حضرت جی! مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ گھر میں میرے لیے آئی ہے یا گھر والوں کیلئے نوکرانی۔ دفتر کیلئے اپنے کپڑے جوتے اور کپڑے سب کچھ میں نے خود ہی تیار کرنا ہیں جبکہ آج بھی میرے والد دفتر جاتے ہیں تو ان کو کپڑے دینا، جوتے دینا اور جب وہ تیار ہوں تو میری والدہ کا وہیں کمرے میں موجود ہونا۔ کیا میرے یا میری بیوی کے کوئی ارمان نہیں۔یہ بات ان کی سمجھ میں کبھی کیوں نہیں آئی۔ یہ سب برداشت کرنے کا مقصد صرف رشتوں کو جوڑے رکھنا‘خدا اور والدہ کی رضامندی تھی۔سسرال والوں کی کوئی عزت نہیں۔ میری ساس چند بار آئی۔ والدہ نے اسے اچھا خاصا ذلیل کیا اب بس ہم دونوں ہیں اور ہماری تنہائیاں۔ حالات نے ہمیں اتنا رُلایا ہے کہ اب تو ہم اِک دوسرے کو تسلی بھی نہیں دیتے۔ دونوں کو چُپ سی لگ گئی ہے۔ بچوں کی تربیت پر بہت اثر پڑرہا ہے۔ بچوں کو دین کے راستے پر لگانا چاہتے ہیں۔ اب تسبیح خانہ کی شکل میں خدا نے ایک راستہ دکھایا ہے۔ خدا را کوئی ایسا حل بتاد یں جس سےیہ ظلم ختم ہو اور والدہ کا رویہ بیوی کے ساتھ بیٹیوں کی طرح ہو جائے۔ (ن‘ کراچی)ایسے لرزہ خیز اور مشکل حالات سے نکلنے کا عمل ایک تسبیح صبح و شام اول و آخر درود پا ک کے ساتھ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنکسی کھانے والی چیز پر دم کر کے تمام گھر والوں کو کھلائیں‘مزیدزبان تالو کے ساتھ لگا کر دل ہی دل میں یہی آیت سات مرتبہ وقفہ وقفہ سے پڑھیں۔ ہدیہـ:مہینےمیں ایک بار کسی بھوکے کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں۔ یہ عمل ہر حالت میں کر سکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں