میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سات سال سے ملازمت کر رہا ہوں، شادی شدہ ہوں اور اللہ کے فضل سے دو بچوں کا باپ ہوں۔ گھر میں اکیلا کمانے والا ہوں، والد صاحب دو سال پہلے وفات پا گئے۔زندگی میں تمام تر سہولتیں اور آرائشیں موجود تھیں۔ جو کماتا تھا اس کمائی کا بڑا حصہ اپنی والدہ کو دے دیتا تھا اور پھر آٹا، دال کی فکر نہیں ہوتی تھی نہ ہی ان کے ریٹ معلوم تھے اس وقت میری تنخواہبھی قلیل تھی لیکن برکت تھی۔زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی پھر کچھ حالات آئے اور آج تنخواہ بظاہر زیادہ ہے لیکن گزارہ نہیں ہوتا۔ والدہ فالج کی مریضہ ہو گئی ہیں اور وہ بازار سے گھر کا راشن بھی نہیں لا سکتیں۔ احساس ہوتا ہے کہ والدہ کے ہاتھ میں برکت تھی۔
لوگوں کا حق مارتا اور تضحیک کرتا
میرے حالات کیسے بدلے اور مجھ پر یہ سختیاں کیوں آئیں؟ اس کی وجہ بھی میں خود ہوں۔اپنی زندگی کا روگ بتا رہا ہوں۔ بچپن سے ذہین تھا جو کام دل لگا کر کیا، کامیابی ملی۔ غلط، صحیح اور حلال و حرام کا فرق بھی معلوم ہوتا تھا پھر بھی بہت مرتبہ کبیرہ گناہ کیے۔ مثلاً چوری، جوا، گالی گلوچ، جھوٹ، نماز نہ پڑھنا، روزے نہ رکھنا، غیبت کرنا اور جو سب سے سرفہرست مسئلہ تھا وہ دوسروں کا حق کھانا‘ ہر کسی کے ساتھ بدتمیزی اور تضحیک کرتا تھا۔ میرا جو بڑا بیٹا ہے اس کی عمر ساڑھے چار سال ہے اور وہ ابھی تک نہ بول سکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے پیدائش کے وقت گردن توڑ بخار ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا دماغ کمزور ہو گیا ہے اور اب یہ نارمل بچوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا لیکن میرا دل نہیں مانتا کیونکہ میرا اللہ چاہے تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں یہ تو پھر انسان ہے۔
ترقی ملی تو اپنی اوقات بھول گیا
سچ پوچھیں تو گردن توڑ بخار صرف ایک بہانہ ہے، اصل وجہ کچھ اور ہے۔ جب میرا بیٹا پیدا ہونے والا تھا تو مجھے ایک لڑکے نے بہت بددعائیں دی تھیں جو آج میرے بیٹے کی حالت ہے یہ اُن بددعائوں کی بدولت ہے۔ان دنوں آفس میں نیا منیجر آیا اس نے میرا ریکارڈ دیکھا اور میرے کام کو سراہتے ہوئے مجھے اسسٹنٹ سپروائزر بنا دیا جس کے بعد میں اپنی اوقات بھول گیا۔ مجھےترقی ملے ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ دفتر میں ملازمت کے لئےایک نیا لڑکا آیا۔ میں اسے بہت تنگ کرتا تھا، ہر وقت اس کی ٹانگیں کھینچا کرتا تھا یعنی بات بات پر بے جا اس کے کاموںمیں کیڑے نکالتا اور بری طرح ذلیل کرتا۔ وہ بے چارہ نہایت اچھا اور نیک انسان تھا میری طرح چالاکیاں نہیں کرتا تھا۔ میں ہر وقت اسے طعنے دیتا رہتا کہ تیرا دماغ کام نہیں کرتا، تو پاگل ہے‘ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔
بد دعائوں کے تعقب نے مجھے چیر کے رکھ دیا
میرے اس غلط رویے اور لہجے پر وہ صبر سے کام لیتامگر جب میں اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو اس نے مجھ سے صرف اتنا کہا کہ کسی کی بددعائیں نہیں لیتے، دعائیں لیتے ہیں‘میری ہمت جواب دے چکی ہے اب جب آپ مجھے تنگ کرتے ہیں تو میرے دل سے بے ساختہ بددعائیں نکلتی ہیں۔ اس وقت میں سوچتا تھا کہ بددعائیں صرف پیروں اور فقیروں کی لگتی ہیں۔ اسے بھی یہی کہتا کہ تو کوئی ولی تو نہیں جو کہے گا اور ہو جائے گا۔مگر میں غلط تھا، ولی بھی اللہ کی مخلوق ہے اور عام انسان بھی۔ وہ کریم ہے، سب کی سنتا ہے۔میں آج سوچتا ہوں کاش اسے تنگ نہ کرتا شاید میرا چاند جیسا بیٹا دوسرے بچوں کی طرح نارمل زندگی گزار رہا ہوتا جبکہ میں اپنے بچے کے لیے بہت رویا ہوں،اس کے علاج کیلئے پیسہ بھی خرچ کیا ہے ۔جس نے جہاں اور جتنی بھی دُور کہا، میں گیا اب تو ہر دعا میں اللہ سے یہی دعا مانگتا ہوں کہ یااللہ! میرے مرنے کے بعد میرے بیٹے کو کسی کا محتاج نہ بنانا جب تک میں زندہ ہوں میں اپنے بیٹے کی خدمت کروں گا، میرے بعد پتہ نہیں اس کا کیا حال ہوگا۔
اب ہر کوئی مجھے گالیاں دیتا اور ذلیل کرتا ہے
آخر میری وجہ سے تنگ آکر وہ لڑکا ملازمت چھوڑ کر چلا گیا۔ اور پھر میرے بُرے دن شروع ہو گئے، آفس میں سب کا رویہ میرے ساتھ بدل گیا۔پہلے دفتر کے اسٹاف والے جو بہت عزت کرتے تھے انہوں نے مذاق کا معمول بنا لیا اور گالیاں دینا شروع کر دیں۔ جو لوگ میرے ساتھ کام کرتے تھے انہوں نے مجھے کتا کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ صبح و شام ایسے گزرتے گئے۔ میں سوچتا رہتا تھا کہ اچانک میرے ساتھ یہ کیا ہونے لگا ہے۔ گھر میں بھی برا سلوک ہونے لگا۔ بیوی کے ساتھ لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن گئے۔ ماں بھی مجھ سے اکثر ناراض رہتی، ماں کو مناتا ہوں تو بیوی ناراض ہو جاتی۔روز روز کے لڑائی جھگڑوں اور پریشانیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ذہنی مریض بن گیا ہوں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردےاور اس مصیبت سے نکال دے۔گناہوں میں مبتلا ہو چکا ہوں‘توبہ کرتا ہوں مگر بھول جاتا ہوںکہ میں نے اللہ سے کوئی وعدہ کیا ہے پھر اللہ اور بڑی آزمائش اور مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔ قرضے سر پر چڑھ گئے ہیں۔ بعض اوقات خودکشی کے خیالات دل میں آتے پھر اپنے بچوں کا سوچتا ہوںتو ارادہ بدل لیتا۔ ہر دن ایک بڑا چیلنج بن کر آتا اور ایک نئی پریشانی دے کر چلا جاتا ہے۔ میں روتا اور سوچتا ہوں کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟پھر اچانک دل میں آواز آتی ہے کہ اس مظلوم شخص کی بددعائیں ہیں جو میرا اور میری نسلوں کا تعقب کر رہی ہیں۔کاش میں پہلے سمجھ جاتا‘معافی مانگ لیتا اور توبہ کر لیتا مگر ایسا نہ ہوسکا‘اب ذلت اور رسوائی مقدر بن چکی ہے۔
س۔ب‘کراچی
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں