محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!میں ایک غریب گھرانہ میں پیدا ہوئی مگر والدین نے مجھے شہزادیوں کی طرح پالا۔جب جوانی کی عمر میں پہنچی تو برداری سے باہر ایک مالدار گھرانہ سے رشتہ آیا‘ والدین نے یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ بیٹی سسرال میں جا کر سکھی اورخوشحال زندگی گزارے گی۔جس دن میری منگنی ہوئی اسی دن ہونے شوہر کی بھتیجی فوت ہو گئی‘اس وقت گھر میں خوشیوں کا سماں تھا جو غمی میں بدل گیا۔اس دوران سسرال اور شوہر والے جب بھی گھر آتے بہت اچھے اخلاق و آداب سے ملتے‘آخر ایک نو ماہ کے بعد میری شادی ہو گئی۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ شوہر کی پہلے بھی شادی ہو چکی ہو‘ ان کی بیوی اور چار بچے بھی اسی گھر میں رہتے ہیں۔یہ سب سننے کے باوجود بھی میں نے گھر بسانے کا فیصلہ کیا کہ جو قسمت میں تھا وہ مل گیا ۔شادی کے چند ماہ بعد شوہر کا بھائی جو کافی عرصہ بیمار تھا اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کینسر کا مریض ہے ‘ پھر شوہر نے اس کے علاج کے لئے کافی زمین بیچ ڈالی ۔میرے سسرال والے مجھے منحوس کہہ کر پکارتے ہیں کہ جب سے تم اس گھر میں آئی ہوں ہمارے نقصانات ہونا شروع ہو گئے ہیں جبکہ یہ معاملات میں پہلے سے ان کے گھر میں چل رہےتھے۔میری سوتن بھی ساتھ رہتی ہے‘ میں نے صلح اور اتفاق کے ساتھ رہنے کی کوشش کی مگر وہ ہر وقت شوہر کو میرے خلاف بھڑکاتی رہتی ہے۔ساس‘ سسر اور سوتن کا آپس میں کافی جھگڑا اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے جنہیں زبان پر بھی نہیں لایا جاسکتا مگرجب میری باری آئے تو وہ تمام ایک ہو کر میرے خلاف ہو جاتے ہیں ‘خوب ذلیل کرتے ہیں۔
منحوس عورت کی منحوس بیٹی
جب بھی ساس‘ سسر یا جیٹھ کی طرف سے بدتمیزی کی جاتی ہے تو میں سوتن کی طرح بدتمیزی کرنے کی بجائے صبر سے کام لیتی ہوں مگر وہ ذرا لحاظ نہیں کرتے اور سب مل کر مارے پیٹتے ہیں۔پھر جب شوہر گھر آئیں گے تو انہیں بھی ایسا بھڑکاتے ہیں کہ وہ میری بات تک نہیں سنتے اور مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک دن میرے شوہر کو اتنا بھڑکا یا گیا کہ رات ایک بجے انہوں نے مجھے اور میری سات ماہ کی بیٹی کو گھر سے دھکے مارکر نکال دیا۔میں بہت مشکل سے والدین کے گھر چلی گئی۔پورا سال گزر گیا مگر شوہر نےپوچھا تک نہیں‘ تقریباً ڈیڑھ سال بعد وہ آئے اور والدین کی منت سماجت کر کے ساتھ لے گئے کہ آج کے بعد کوئی نا انصافی نہیں ہوگی۔پہلا ہفتہ تو ٹھیک گزرا مگر دو ہفتوں بعد وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری بیٹی عطا کی تو سسرال والوں نے دوبارہ سے منحوس کہنا شروع کر دیا اور اب اسی نام سے پکارتے ہیں اور بیٹیوں کو منحوس عورت کی منحوس بیٹی کہہ کر بلاتے ہیں۔اب سوتن کے بچے بھی بہت بدتمیزی کرتے ہیں‘ گالیاں دے کر بلاتے ہیں مگرگھر والے سمجھانے کی بجائے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔والدین کے حالات اتنے کمزور ہیں کہ ان پر بیٹیوںکو بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی اور نہ ہی انہیں اپنی وجہ سے دکھ دینا چاہتی ہوں۔روزانہ لمحہ لمحہ گھٹ گھٹ کر اور سسک سسک کر جی رہی ہوں مگراس سب کے باوجود بھی اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں۔ حضرت جی آپ کوئی ایسا عمل بتا دیں جس سےیہ مسائل حل ہو جائیں ‘میں اور میرے بچے باعزت طریقے کے ساتھ اپنے گھر میںر ہیں۔(ب‘ہری پور)
ایسے لرزہ خیر حالات سےنکلنے کا فیصلہ کن عمل
آپ سارا دن کثرت کے ساتھ اپنے مسائل کا تصور کرتے ہوئے یَا حَلَّ الْمُشْکِلَات کاورد کریں اور جب بھی کھانا وغیرہ بنانے کے بعد آگ کو بھجائیں تو تین بار یہی کلمات پڑھ کر اس تصور کے ساتھ پھونک مار کر آگ بھجائیں کہ نفرتوں‘ لڑائی جھگڑوں کی آگ ختم ہو گئی ہے۔ عمل کا ہدیہ:ہفتہ یا مہینہ میں ایک بار جب بھی مناسب ہو پرندوں کو دانہ یا پانی ڈال دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں